Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کرسی

MORE BYخالد عرفان

    سیاسیات میں اونچا ہے نام کرسی کا

    کیا ہے میں نے بہت احترام کرسی کا

    گھسیٹا اپنی طرف انتظام کرسی کا

    یہ میرا کام تھا باقی ہے کام کرسی کا

    یہ گول میز سے کہتی ہے اب کہ تو کیا ہے

    چیئر کے سامنے صوفے کی آبرو کیا ہے

    کوئی کلرک کوئی منیجر کی کرسی ہے

    جہاں ہے نرس وہیں ڈاکٹر کی کرسی ہے

    جو ایک ٹانگ کی ٹوٹی کمر کی کرسی ہے

    وہ میرے شہر کے اک کونسلر کی کرسی ہے

    برادری کی بدولت امین ہیں موصوف

    پچاس سال سے کرسی نشین ہیں موصوف

    چیئر پہ بیٹھ کے سارے ہی شان والے ہیں

    جو پر کٹے تھے وہ اونچی اڑان والے ہیں

    جو بے مکان تھے دس دس مکان والے ہیں

    وہ صرف پان نہیں پاندان والے ہیں

    عجیب رسم چلی ہے کہ اس زمانے میں

    عوام دھوپ میں کرسی ہے شامیانے میں

    مشاعرے میں بھی اکثر اچھل گئی کرسی

    غزل کے چلنے سے پہلے ہی چل گئی کرسی

    ہر ایک میز سے آگے نکل گئی کرسی

    بدل گئے رفقا جب بدل گئی کرسی

    حرام مال سے جائز کمائی بہتر ہے

    نئی چیئر سے پرانی تپائی بہتر ہے

    اسی کا ذکر بسوں میں بھی بات بات پہ ہے

    تمام ریل میں جھگڑا اسی کی ذات پہ ہے

    یہی سوار اراکین بلدیات پہ ہے

    اسی کا حکم قلم پر کبھی دوات پہ ہے

    مشاعرے میں بھی جھگڑا اسی عبارت کا

    کبھی مقام کبھی کرسیٔ صدارت کا

    بنی تھی کرسی جو اک ہیڈ ماسٹر کے لیے

    جناب ہیڈ اسے لے گئے ہیں گھر کے لیے

    بنا دیا جنہیں کرسی نے عمر بھر کے لیے

    چیئر ہے ان کے لئے وہ نہیں چیئر کے لیے

    امانتاً جو چیئر پر بٹھائے جاتے ہیں

    وہ لوگ خود نہیں اٹھتے اٹھائے جاتے ہیں

    کچھ اس ادا سے یہ دل کش صفات چلتی ہے

    کسی رئیس کی گویا برات چلتی ہے

    جہاں بھی جاؤ یہی ساتھ ساتھ چلتی ہے

    چپک کے جیسے شریک حیات چلتی ہے

    یہ ذائقہ بھی عجب ہے کہ چکھ نہیں سکتے

    ہم اس کی گود میں تشریف رکھ نہیں سکتے

    مأخذ :
    • کتاب : No Problem (Pg. 61)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے