لوگ گمان کر بیٹھے ہیں کے خدا کوئی نہیں
ہر طرف نظام بدل رہا ہے
پرندوں کے گیت اب شور کی
شکل اختیار کر چکے ہیں
پہاڑ گزشتہ دو دہائیوں سے غم زدہ ہیں
قہقہوں نے غموں سے دوستی کر لی ہے
اب پرندے شہر کا رخ نہیں کرتے
انسان انسانوں سے خوفزدہ ہے
بہتی ندیاں اب ویران آوازیں نکالتی ہیں
سمندر کسی بڑے حملے کی تیاری کر رہا ہے
زمین لوگوں سے تنگ آ کر اپنے مدار میں
گھومنا بند کر چکی ہے
پہاڑ اب زمین کی گرفت سے آزادی چاہتے ہیں
لوگ اپنی مرضی کر رہے ہیں
طوائفوں کے پاؤں چومتے اور بیوی کو
خوشیاں دینے سے کتراتے ہیں
دن بھر حسینوں کے جسموں کے خد و خال ماپتے
شام کو انہیں آنکھوں سے سپنے دیکھتے
اور سوچتے ہیں کے خدا کوئی نہیں
ویران سڑکوں پر رینگتی خاموشی نہ جانے
کتنے انسان نگل چکی ہے
محبت کے ہاتھ اب بے شمار لوگوں کے
خون سے رنگ چکے ہیں
ہر چیز خوفزدہ ہے
مگر خدا ابھی بھی کسی گہری
سوچ میں مبتلا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.