کیا وہیں ملو گے تم
کچھ دنوں سے میں جب بھی
آئینے میں اپنی ہلکی سفید لٹیں دیکھتی ہوں
ایک جانا پہچانا راستہ نظر آتا ہے
جس کے ایک کنارے تم چل رہے ہو
دوسرے پہ میں چپ چاپ اجنبی بن کر
تمہارا دھندلا سا چہرہ
وہ کالی فریم والے چشمے
کانوں کے پاس اگی ہوئی
کچھ ایسی ہی سفید لکیریں
میں تمہیں غور سے دیکھ نہیں پا رہی
بس چلتے جا رہی ہوں تمہارے ساتھ
تم سے دور خاموشی سے
اس بار گل مہر کے پیڑ کی طرف نہیں
ایک ڈھلتی ہوئی شام کی اور
ڈوبتے ہوئے سورج کی طرف
وو سفید لکیریں اب پھیل رہی ہے
ہلکی سنہری روشنی میں چاندی سی چمکتی
وو چمک میری انگلیوں میں اتر آتی ہے
تم سے دور ہوں پھر کیسے
اندرونی تھکان دھیرے دھیرے بڑھ رہی ہے
میں پکارنا چاہتی ہوں تمہیں
ہاتھ بڑھا کر چھونا
شاید تم بھی مگر
کافی دور آ چکے ہے ہم
اور اچانک وہ شام
گہرے اندھیرے کنویں میں ڈوبنے لگتی ہے
ایک بھنور مجھے کہیں کھینچ رہی ہے
میں اب تمہیں دیکھ نہیں پا رہی
اور تم بھی مجھے ڈھونڈھ رہے ہوں گے
تم اب بھی دور ہو یا پاس
کس کنارے پہ ہو اب تم
کہیں یہ رات تو نہیں
وہی رات جس کا تم ذکر کیا کرتے تھے
وہی رات جس کا دن نہیں ہوتا
جہاں ہم مل سکتے ہے
کیا یہیں ملو گے تم مجھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.