کیا وہ میں ہی تھا
کیا وہ میں ہی تھا
جس نے
اتنی غزلیں نظمیں اتنے ناٹک
اور نہ جانے کیا کچھ لکھا
میری آنکھیں
میلوں دور فلک پر اڑتی ہوئی پتنگیں دیکھ کے
ان میں فرق بتا سکتی تھیں
بیڈمنٹن کے کورٹ کے آخری کونے سے
پلک جھپکنے میں آگے نیٹ پر آتا تھا
اور پلٹ کر پل میں
واپس دوسرے کونے تک جاتا تھا
کیا وہ میں ہی تھا
گھر کی تیسری منزل پر
دن میں دس بار پہنچنا
کوسوں پیدل چلنا
دوڑ لگانا
دن کی تھکن کا
رات کی بیداری میں مخل نہ ہونا
دو دو روز مسلسل
چونسٹھ خانے سامنے رکھے
مہرے آگے پیچھے کرنا
سب معمول کی باتیں
کھانے سے پہلے یہ کبھی نہ سوچا
کیا کھانا ہے
بعد میں کبھی خیال نہ آیا
کیا اور کتنا کھایا
گنے کو دانتوں سے چھیل کے کھا سکتا تھا
کچا سٹا پکے چنے چبا سکتا تھا
شرط لگا کر آنگن میں
جامن کے پیڑ کی سب سے اونچی شاخ کو چھو آتا تھا
کیا وہ میں ہی تھا
اور وہ عشق کے قصے
خیر
ان کا ذکر تو جانے ہی دو
ان کے بیاں کی تاب نہیں ہے
یادوں کے دفتر میں گویا
اب یہ باب نہیں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.