کیوں کہیں بیٹھ کے دم لیتے نہیں ایک گھڑی
کس طرف دوڑے چلے جاتے ہو تم یوں سرپٹ
کون سی منزل مقصود پہ آنکھیں ہیں گڑی
کیوں لبھاتے نہیں رستے کے نظارے تم کو
کیوں کہیں بیٹھ کے دم لیتے نہیں ایک گھڑی
جستجو کون سے فردا کی ہے جس کی خاطر
تم نے امروز کے پل پل کو ہے ناشاد کیا
کون جانے وہ کبھی آئے گا بھی یا کہ نہیں
تم نے جس کل کے لیے آج ہے برباد کیا
اس طرح جینا تو اے دوست جہالت ہے بڑی
کیوں کہیں بیٹھ کے دم لیتے نہیں ایک گھڑی
دوڑ یہ کیسی ہے حاصل ہے بھلا کیا اس کا
رزق کس کام اگر روح نہیں ہے راضی
پا کے سب کچھ بھی لگے گا کہ نہیں کچھ پایا
جیت کر ہار ہی جاؤ گے تم آخر بازی
اس قدر کس لئے بولو تمہیں جلدی ہے پڑی
کیوں کہیں بیٹھ کے دم لیتے نہیں ایک گھڑی
ہاتھ آیا ہے کسی کے کبھی مستقبل کیا
بے سبب ایسے چھلاوے کا کرو مت پیچھا
دولت نقد تو ہے صرف یہ وقت حاضر
چھوڑ کر نقد ادھاری کا کرو مت سودا
جو گھڑی ہاتھ ہے آئی ہے وہ انمول گھڑی
خوب جی بھر کے جیو زیست کی ہر ایک گھڑی
کس طرف دوڑے چلے جاتے ہو تم یوں سرپٹ
کیوں کہیں بیٹھ کے دم لیتے نہیں ایک گھڑی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.