کیوں شمع جلائی آخر شب
خوش آمدید کہوں کیا یہ شب عذاب کی ہے
یہاں ملی ہو جو منزل شکست خواب کی
یہ میں ہوں یا کوئی آنسو تمہاری پلکوں کا
یہ تم ہو یا کوئی الجھن مرے شباب کی ہے
مرے وجود کو دیکھو نہ اس توجہ سے
یہ آفتاب نہیں لاش آفتاب کی ہے
تم آنسوؤں کو مری جان پڑھ نہ پاؤگی
یہ داستاں کسی بھیگی ہوئی کتاب کی ہے
نہ پونچھو اپنے دوپٹے سے میری پیشانی
یہ خاک راہ تو سوغات انقلاب کی ہے
شباب چھوڑ گیا دے کے ایک درد سفر
یہ یادگار اسی کوچۂ خراب کی ہے
عجیب سوچ میں ہے زندگی کا دوراہا
نہ اب سکون کی صورت نہ اضطراب کی ہے
یہ لب ہیں یا کسی گزری ہوئی بہار کے پھول
بدن ہے یا کوئی خالی دکاں شراب کی ہے
میں سن رہا ہوں تمہارے لبوں کی خاموشی
غزل غزل مرے ماضی کے انتخاب کی ہے
بھٹک رہا ہوں میں اس بے دلی کے صحرا میں
جہاں گناہ کا ڈر ہے نہ دھن ثواب کی ہے
تمہارے رخ پہ ہے آئینہ ٹوٹنے کا نشاں
مہک مشام میں سوکھے ہوئے گلاب کی ہے
یہ تیس سال کی دوری یہ ایک روز کا قرب
سکوں کا موڑ بھی تصویر اضطراب کی ہے
ندی کے سامنے کھلتا ہے گھر کا دروازہ
مرے مکان کے پیچھے گلی سراب کی ہے
تمہارا درد مری شاعری کے کام آیا
یہ روشنی اسی گم گشتہ ماہتاب کی ہے
کہاں سے لاؤں ستارے جو تم کو نذر کروں
یہ شب تو روح کے داغوں کے احتساب کی ہے
میں انتظار میں تھا جب تو ہاتھ چھوڑ دیا
یہاں ملی ہو جو منزل شکست خواب کی ہے
میں آنسوؤں کو کہوں کیا کہ چھلکے پڑتے ہیں
خوش آمدید کہوں کیا کہ شب عذاب کی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.