''لا'' بھی ہے ایک گماں
تم نے کیا دیکھا یہاں کچھ بھی نہیں
ہم نے کیا پایا یہاں کچھ بھی نہیں
''بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں''
''لا'' سے آغاز فسانے کا ہوا
''لا'' سے تہذیب زمانے کی ہوئی
''لا'' کی تفسیر نہیں ہے ممکن
''لا'' ہی سے عشق کا آغاز ہوا
عشق ہے ایک بلا
عشق سفاک و ہوس ناک دریدہ دامن
جس کے قدموں سے بپھرتے ہوئے دریا امڈے
جس کی آنکھوں سے دہکتے ہوئے ہیرے نکلے
جس کے ہاتھوں پہ چمکتے ہوئے مہتاب اترے
عشق وہ آگ کہ جو اور جلا دے جائے
عشق وہ خواب کہ جو نیند اڑا لے جائے
اس قدر سرکش و سفاک کہ بس
دشت کاشان سے دلی کا سفر
''نگہ جلوہ پرست اور نفس صدق گزیں''
اک ''ابھے چند'' مرے نامۂ اعمال میں ہے
عالم کل خواب میں ہے
سنگ مرمر کی اسی مسجد کے
سرخ زینوں پہ لہو بہتا ہے
آج بھی کل کی طرح ہنستا ہے
کفر مسجد میں بہاتا ہے لہو
عشق سجدے میں کہے ''شکر اللہ''
شاہ آباد بھی طوفان میں بہتا جائے
اور داراؔ ہے کسی سوچ میں غرق
مسند عدل سپہ سالار اور تخت میں ہم فکری ہے
ایک ہے ''ملا قوی''
ایک ہے بس یہاں ''عالم گیر''
اور مقتل میں اکیلا سرمدؔ
رخ تاریخ بدلنے کو ہے
اس کے اشعار ہی سے تخت لرز جاتا ہے
ایسے ادوار کئی بار زمیں پر گزرے
کیسے تلوار نے مفتوح قلم کرنے کو
ہاتھ کاٹے ہیں زباں کاٹی ہے سر کاٹے ہیں
ہم نے دیکھا ہے کھلی آنکھوں سے
آج کی کون کرے اب تعظیم
کل کی تکذیب نہیں ہو سکتی
راکھ سے گھر تو نہیں بن سکتے
کوہ میں در تو نہیں بن سکتے
خواب فریاد نہیں کر سکتے
خواب دیکھا ہے کھلی آنکھوں سے
چاند کو خوں میں نہاتے ہم نے
سر کھلے دشت کو ماتم کرتے
اور محلات کو کھنڈروں میں بدلتے دیکھا
کذب کو عدل کا ہر فیصلہ کرتے دیکھا
تخت کو وقت کا فرعون بھی بنتے دیکھا
زیر شمشیر یہ سرمدؔ نے کہا ہنستے ہوئے
''مسند عدل و مساوات یہاں کچھ بھی نہیں
''لا'' بھی ہے ایک گماں
اور گماں کچھ بھی نہیں''
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.