لا انتہا ابھی
نہ جانے وہ لوگ گم کہاں ہیں
چھلک رہی تھی
فلک کے ساغر سے رحمت حق کی تند صہبا
فضاے ایام میں محبت کی فاختائیں بھی
پنکھ پھیلائے اڑ رہی تھیں
دیار جرماں میں جھانکتی تھیں
امید فردا کی نرم کرنیں
مگر یہ آشوب وقت کا ہے اثر کہ جس سے
جھلس گئے ہیں تصوروں کے حسین چہرے
فضا بھی خاموش روح بیتاب
دور مندر کے دیوتا چپ
دھڑکتے دل کی یہ سنسناہٹ
کھسکتے پتوں کی سرسراہٹ
پڑے ہیں خاموش کھوکھلے مندروں کے ناقوس
بجھے پڑے ہیں تمدنوں کے حسین فانوس
یہاں اجنتا کا اور کونارک کا
فن تخلیق ہچکیاں لے رہا ہے پیہم
یہاں تو اب صوموں میں اور مسجدوں میں
گھر کر چکے ہیں تخریب کے ابابیل
نفس نفس میں گھٹن کا جذبہ
رگوں میں تلخی ہے زہر غم کی
بھٹکتے رہنے کو اب خلا کے سوا نہیں کچھ
گئے تھے جو لوگ اس طرف سے
انہیں کا ہے انتظار ہم کو
وہ آئیں گے کب وہ آئیں گے کب
یہاں اہنسا کو گھن لگا ہے
یہاں محبت کی وادیوں میں اگی ہے کائی
پیام انسانیت کو گویا لگی ہے دیمک
وہ درد دل کی لویں
جو مثل چراغ جلتی رہی تھیں صدیوں
نہ جانے کیوں آج بجھ چکی ہیں
نظر کو دھندلا رہی ہے کیوں دور کی سیاہی
گئے تھے کچھ لوگ جو ادھر سے
انہیں کا ہے انتظار ہم کو
فلک کے لا انتہا ابھی میں
نہ جانے وہ لوگ گم کہاں ہیں
- کتاب : sheerazah (Pg. 98)
- Author : makhmoor saeedi,Parem Gopal Mittal
- مطبع : P -K Publication 3072 Partap stareet gola Market -Daryaganj delhi-6 (1973)
- اشاعت : 1973
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.