میں سو گیا
تو زندگی علامتوں کی کھوج میں نکل گئی
پرانے زاویوں کی دھول
جسم پر ملے ہوئے
بہت نراش سینکڑوں برس کے گیت گھاٹ گھاٹ پھیلتے سفید پانیوں کے بیچ گھولتی
چلتی گئی
سفید پانیوں کے نام
پرانے زاویوں کی دھول نفرتیں اور پتھروں کی ڈھیریاں
اداس پاؤں تھک گئے
نہ جادوؤں کی بھیڑ تھی نہ لوگ تھے جو دھات کے بنے ہوئے حصار میں گھرے
ہوئے بکھر گئے
نشان کانپتے نشان کھو گئے
وہ گاؤں اور گاؤں کی ندی پہ ایک پل کہ جیسے آئنہ پہ سنگترے کے سرخ قاش
بارہا جو دھوپ میں چمک اٹھی
وہ بارشوں سے دھل گئی
کبھی سفید پیالیوں کے گرد جو بندھے ہوئے سیاہ تار دیر تک صدائیں دے کے کٹ گئے
تو موسموں کے سائے بھی گزر گئے
زمین اپنے آنسوؤں سے بھیگتی چلی گئی
ہوا چلی تو دور دور دھند سے اٹے ہوئے گھروں کی مون بستیوں میں فاصلوں کے تیز
سنکھ بج اٹھے
جہاز کوئی آ رہا ہے پانیوں کو چیرتا وہ آ گیا
مگر یہاں کی بستیوں میں کون ہے جو آس کی شکھا لیے سپاٹ سرد ریت پر کھڑا رہے
کوئی نہیں کوئی نہیں
تو کیوں نہ اب بجھی ہوئی دشاؤں کو سمیٹ لیں
تو کیوں نہ اور سو رہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.