ماں مجھے لوری سنا
لوری جو تیرا فرض ہے
اور بیس برسوں سے
ترے ہونٹوں پہ میرا فرض ہے
بیس برسوں سے
میں سکھ کی نیند سو پایہ نہیں
میرے زخمیدہ پپوٹوں کو کسی لمحے نے
سہلایا نہیں
میرے چاروں سمت
ٹھہری رات جلتی جنگ کے
میدان میں
لاشوں پٹے کھلیان ہیں
رستوں بھرے سارے نگر ویران ہیں
اور میں کسی تربت کا پتھر
موت کی گونگی گواہی
ہار کی دہشت سے گھبرایا ہوا
تنہا سپاہی
اس تباہی کے سرہانے
سرنگوں نوحہ بلب نیزہ بکف
ماں یہ میراث تماشا
ڈوبتی آہوں کراہوں کا یہ شور بے تحاشا
ٹوٹتی سانسوں کی جھنکاریں
پکاریں لاشہ لاشہ
کیا مرے ہونے کی تعزیروں میں ہیں
کیا مرے اجداد کی قبریں بھی
زنجیروں میں ہیں
ماں اگر ایسا نہیں تو پھر
یہ تنہائی کی بے خوابی
مری تقدیر کی مٹی پہ
کیوں گدھ کی طرح بیٹھی ہوئی ہے
اور آخر کیوں
فلک کی گول پیلی آنکھ نے
چاروں طرف آبادیوں کو
گھر میں کفنا دیا ہے
ماں زمینیں کیوں
خلاؤں کے کفن اوڑھے ہوئے ہیں
کس لئے ماتم میں ڈوبے شہر
سر جوڑے ہوئے ہیں
میرے اندر اور باہر کی زمیں پر
بازوؤں ٹانگوں سروں چہروں
لبوں کے ان گنت انبار ہیں
اور دو آنکھیں مری ان سب کی پہرے دار ہیں
آنکھیں جو اب
بے خوابوں کی ریت سے بھر جائیں گی
آنکھیں جو اب مر جائیں گی
- کتاب : 1971 ki Muntakhab Shayri (Pg. 35)
- Author : Kumar Pashi, Prem Gopal Mittal
- مطبع : P.K. Publishers, New Delhi (1972)
- اشاعت : 1972
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.