لب دریاے سخن پر
دریائے سخن عشق کے نشے میں رواں ہے
سبزہ ہے گلستان تصور کے کنارے
مدہوش روانی میں مری فکر نہاں ہے
مسحور ہیں موجوں کے ترنم سے کنارے
یہ وقت سحر باد صبا دھند کی چادر
لگتا ہے کہ شبنم ابھی اتری ہے گلوں پر
رقصاں ہیں سر راہ کئی شاخ صنوبر
کچھ دیر میں نکلے گا اجالوں کا پیمبر
مشرق سے خداداد شعاعوں کو پہن کر
مائل بہ تخیل ہے ابھی طبع سخنور
تم نور کا پیکر ہو تمہیں نظم میں ڈھالوں
کچھ روشنی پڑ جائے تمہاری مرے فن پر
میں چشم تحیر سے تمہیں دیکھ رہا ہوں
تم بیٹھی ہوئی ہو لب دریاے سخن پر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.