لب کشا
یہ چپ کتنے دن کی تھی جو آنسوؤں میں ڈھلی
یہ گہری چٹان ایسی پتھریلی جامد انوکھی سی چپ
اس کا چھونا بھی ممکن تھا تب
یہ چپ تھی کہ پورا وجود اپنا جو آنسوؤں میں ڈھلا
بتاؤ تو اس چپ کی بھیدوں بھری تھاہ میں شور کیا تھا
بتاؤ تو کیا گونج تھی
ایک صدا دوسری سے ہم آہنگ جس میں نہ تھی
جیسے صدیوں کے بے خواب دھندلی شبیہیں
دھواں دھار جلتی چتاؤں میں گھر کر تڑختی اچھلتی ہوں
کہتی ہوں تقدیر برحق ہے برحق ہے زندہ اٹل
ہم آہنگ گردش ستاروں کی ہے
پڑ گئیں جو فضاؤں میں لیکیں پرانی
وہ ان پر پھرے جا رہے ہیں پھرے جا رہے
سب حدیں ان کی پیمودہ ہیں
مگر اپنے خواب و حقائق کا سیل عظیم
کوئی لیک اس کی بنا دے
مگر کیوں
کبھی جو بنا دے بھی کوئی تو سوچو
ہمارے قدم اور لیکوں کا رشتہ کہاں تک
کہ اک حد پہ مٹ جائیں گی وہ
تو کیا ہم بھی تھم جائیں گے
ہم تو بڑھتے ہی رہتے ہیں
چاہے وہ زلزال ہو جو ہمکتا نظر آئے
چاہے وہ اک سوچ ہو جو تراشے چلی جائے بے شور و شیون
سیہ دہشتوں کے پہاڑ
سزاوار رفتار ہم
اور ہر اک گام پر پائمالی وہ اپنی ہو یا دوسروں کی
تأسف میں اور سوگ میں ایک جیسی ہے اپنے لیے
سفینہ تھا بھاری تو کیا کیا نہ کچھ پھینک ڈالا
مژہ سے ٹپکتے ہوئے قطرۂ اشک کا بار
خوابوں سے خوشبو کا بوجھ
نچوڑا تو لہریں بھی ہلکی گلابی ہوئیں
رندھی لے میں گاتی رہیں دل دکھاتی رہیں
کوئی ہم سے پوچھے
کہ اب وقت کیا ہے
تو ہم کہہ اٹھیں اک صدا
ہم اس میں کھپے کھو گئے
اب صدا پر بھی تعزیر کیسی
صدا دو
کہ اک بول کی پیاس اپنے گلو میں جلائے
کھڑی ہے ستم کش تمنا کنارۂ فرات
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.