لبیک
سناٹوں کا شب خوں ہے
ہوا کے نٹکھٹ تاروں پر
دور کہیں کچھ آوازوں کی سرگوشی ہے
یہ نافہم صدائیں
کبھی مدھر سا رے گا ما پا دھا نی سا ہیں
کبھی پگھلتا سیسہ ہیں
چاروں جانب سیل ہوا ہے
مگر خلا ہے
خوشبو رنگ نہ تارے میں
تشنہ گوش عدم سماعت کے مارے ہیں
دھندلے خواب دیکھنے کی چاہت میں ہارے ہیں
آنکھیں دو انگارے ہیں
سناٹوں کا شب خوں ہے
درد کی سوئیاں ٹک ٹک ٹک ٹک کرتی ہیں
پلکیں ہلنے جلنے سے بھی ڈرتی ہیں
سانسیں آہیں بھرتی ہیں
اک نقطے پر سارا عالم سمٹ گیا ہے
یوں لگتا ہے
سانپ کسی نیولے کے بدن سے لپٹ گیا ہے
ناامیدی اور امید کی چوکھٹ پر
کون کسی بھڑ کے چھتے کو ہاتھ لگائے
دور کی آوازیں سلجھائے
نیند جگائے
سناٹوں کا شب خوں ہے
اور اندھیرے گھپ میں
خاموشی کی گونج ہے گہری چپ میں
صبح کی پہلی کرن نگاہوں سے اوجھل ہے
نفس نفس بوجھل ہے
بس اک دھڑکن کی دستک ہے جس کی صدا پر
دل لبیک کہے جاتا ہے
روشنیوں کی انگڑائی تک
دل لبیک کہے جائے گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.