لڑکپن کی یاد
تو مجھ کو ہم نشیں اپنا لڑکپن یاد آتا ہے
کبھی خالی کلاسوں میں جو بچے غل مچاتے ہیں
کسی انجان شاعر کی غزل مل جل کے گاتے ہیں
خوشی سے ناچتے ہیں ڈیسک پر طبلہ بجاتے ہیں
تو مجھ کو ہم نشیں اپنا لڑکپن یاد آتا ہے
ہوا کرتی ہے جب چھٹی تو چنچل سرپھرے خود سر
لئے ہاتھوں میں بستے مارتے فٹ بال کو ٹھوکر
اچھلتے کودتے بچے نظر آتے ہیں سڑکوں پر
تو مجھ کو ہم نشیں اپنا لڑکپن یاد آتا ہے
کبھی اس شاخ سے اس شاخ پر بچے اچھلتے ہیں
کبھی شاخوں پہ جھولے ڈال کر ظالم مچلتے ہیں
سماں یہ دیکھ کر ماں باپ کے سینے دہلتے ہیں
تو مجھ کو ہم نشیں اپنا لڑکپن یاد آتا ہے
کوئی شاگرد جب ساتھی کو اپنے گدگداتا ہے
وہ ساتھی ہو کے عاجز سامنے فریاد لاتا ہے
کلاس اس بے بسی پر چپکے چپکے مسکراتا ہے
تو مجھ کو ہم نشیں اپنا لڑکپن یاد آتا ہے
ہزاروں شوخیاں ہوتی ہیں بچپن کے زمانے میں
چبھو کر پن کوئی بچہ کسی بچے کے شانے میں
ہوا کرتا ہے جب مشغول طنزاً مسکرانے میں
تو مجھ کو ہم نشیں اپنا لڑکپن یاد آتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.