میں سوچوں کیسے یہ لہرا کے اتنے پاس آتی ہیں
میں سوچوں یہ نمی اتنی کہاں سے ساتھ لاتی ہیں
سنہری صبحیں ہوں پہلو میں یا پھر کتھئی شامیں
اسی شدت سے دونوں کو گلے اپنے لگاتی ہیں
فضا میں تیرتی ہے وقت کی تصویر جو کوری
افق سے رنگ لا کر اس کے دامن کو سجاتی ہیں
سمو لیں یوں تو ساری انجمن اپنی پناہوں میں
نہ جانے ساحلوں کو چھو کے کیوں شرما سی جاتی ہیں
امڑ کر چومتی ہیں بادلوں کا رخ کبھی یوں تو
کبھی پھر چاند کو آغوش میں اپنے بلاتی ہیں
مسلسل جاگنا صدیوں سے جیسے ان کی فطرت ہو
مگر یہ کشتیوں کو اپنی چھاتی پر سلاتی ہیں
بلا کا درد ہے سینہ میں ان کے جذب مدت سے
مگر جب دیکھیے آنکھوں ہی آنکھوں مسکراتی ہیں
یہ سانسوں کی طرح ہیں زندگی کا سلسلہ تھامے
کبھی سنیے اگر یہ داستاں اپنی سناتی ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.