دریچے سے جہاں تک بھی نظر آتا ہے
مسلسل خامشی ہے
سڑک کی پیلی لکیر
سر پیٹتی ہے
دور تک فٹپاتھ پر روندے ہوئے سائے
پول پر بجلی کے کھمبے سے لٹکتی ایک چمگادڑ
صبح کا زرد چہرہ رات کے اندوہ کا احوال ایک چوپایہ
اور نکڑ پر کھڑے ہو تم
مسلسل خامشی ہے
دریچے سے جہاں تک بھی نظر آتا ہے
مسلسل خامشی ہے
مرے کمرے کے اندر
ہاں مگر تاریخ روشن ہے
ہزاروں سال کے تجربے بانہیں پسارے ایسے بیٹھے ہیں
کہ جیسے شہر بھر کی خاموشی سے مطمئن ہوں
میرے کمپیوٹر کی ڈیسکٹاپ
کل کی اک تصویر اپنی کہانی بولتی ہے
نہ جانے کیوں یہ منظر دیکھتے ہی
سڑک پر پھر شور و گریہ جاگ اٹھتا ہے
سروں کی بھیڑ اگتی ہے
رواں رہتے ہیں سائے
بجز اس کے مسلسل خاموشی ہے
مگر دل چاہتا ہے خاموشی کو ایسے توڑوں
تمہارے پاس جاؤں
اور کہوں بندوق کو نیچے کرو
آؤ نا مری ڈیسکٹاپ پر کل کا فوٹو تم بھی دیکھو
تم بھی دیکھو
میں لہو کو زوم کرتا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.