لہو سے میرے ٹپکے ہے نمک آہستہ آہستہ
عجب یہ روشنی ہے جس سے ہر جانب اندھیرا ہے
گرم راتوں کے آنگن سے پرے میرا بسیرا ہے
میں اپنے خالی کمروں کے در و دیوار سے تر ہوں
میں اپنے خواب میں رکھا ہوا اک خالی بستر ہوں
لہو سے میرے ٹپکے ہے نمک آہستہ آہستہ
مجھے ہے علم میں ہوں جسم اک بے کار سائے کا
مرے الفاظ دیواروں سے لگ کے ٹوٹ جاتے ہیں
کبھی لمحے ہم اپنے پیچھے چھوٹ جاتے ہیں
لہو سے میرے ٹپکے ہے نمک آہستہ آہستہ
میرے انکار سے ہے درد میں فراوانی
کہ جیسے ہوں کئی سورج مگر پھر بھی اندھیرا ہو
تمہاری مہربانی یہ بتاؤ کون ہو تم کیوں
تمہارے گھر سے تھوڑا دور حیوانوں کا ڈیرا ہے
لہو سے میرے ٹپکے ہے نمک آہستہ آہستہ
کبھی اک ریت پر چلتی ہوئی کشتی کبھی ہم ہیں
جو اپنے بازوؤں پر باندھ کر پتوار چلتے ہیں
فلک ہے یا کہ اپنے سر کے اندر پھیلتا سا کچھ
کبھی اس پار چلتے ہیں کبھی اس پار چلتے ہیں
لہو سے میرے ٹپکے ہے نمک آہستہ آہستہ
سحر سے شام تک پھر صبح تک آہستہ آہستہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.