لکیریں کون کھینچے گا
دلچسپ معلومات
(تحریک، دہلی)
لکیریں کھینچ دو چاروں طرف اس کے
لکیریں کھینچ دو
کہ وہ نقطہ ہے
لیکن دائرے کی قید سے باہر نکل جائے
تو اک پل میں
لکیریں کھینچ دو چاروں طرف اس کے
لکیریں کھینچ دو
کہ وہ جلتا ہوا اک لفظ ہے جس کو
کسی کے ہونٹ نے اب تک نہیں چوما
اگر چومے
لکیریں کھینچ دو چاروں طرف اس کے
لکیریں کھینچ دو
وہ اک ایسا تصور ہے اگر الفاظ کے ملبوس میں
ترسیل ہو جائے
تو موجیں ساگروں کی بانہہ سے آزاد ہو جائیں
پہاڑوں کی بلندی دیکھتے ہی دیکھتے پاتال کے اندر اتر جائے
چمکتا گرم سورج اپنے ہی قہر و غضب کی آگ میں جل کر پگھل جائے
زمین معدوم ہو جائے
لکیریں کھینچ دو چاروں طرف اس کے
لکیریں کھینچ دو
لیکن
- کتاب : 1971 ki Muntakhab Shayri (Pg. 52)
- Author : Kumar Pashi, Prem Gopal Mittal
- مطبع : P.K. Publishers, New Delhi (1972)
- اشاعت : 1972
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.