لمحہ جو امر ہو گیا
فطرت مضطرب
میرا شوق فضول
جانے کب اک کتاب
شیلف سے تیری لے آیا تھا
یاد کی تیری پروائی کل جو چلی
بول اٹھے اس کے سارے ورق
تیرے لب کے گلاب
تیری آنکھوں کے جام
تیرے مکھڑے کی صبح
تیری زلفوں کی شام
مستقل اک خلش
درد بے نام جس کو کہیں
اور پھر
چند صفحوں کے بعد
گل کی اک پنکھڑی
زرد مرجھائی بے رنگ سی
جسم کی تیرے خوشبو تھی اس میں مگر
تھی نزاکت لبوں کی ترے
انگلیوں کے نشاں
آنسوؤں کی نمی
میری نظروں نے پھر
اس کو سجدہ کیا
اور وہ لمحہ جیسے امر ہو گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.