شام کا پہلا تارہ
دل کے افق پر جس کی جوت سے
قوس قزح سے اتری تھی
اور اس قزح نے
ساری دل کی دنیا چمکائی تھی
زیست کا پہلا ساون تھا وہ
جس سے جیون ساگر میں
اک لہر اٹھی تھی
اور اس لہر نے ساری ہستی
جل تھل کی تھی
باغ کی پہلی تتلی تھی وہ
من آنگن کے سونے پن میں
جس کی اک پرچھائیں پڑی تھی
اور جس پرچھائیں کو چھونے کی
خواہش میں
دشت تمنا میں جا نکلے تھے ہم
دشت تمنا جس میں ہر سو
گہرا سناٹا تھا
سناٹا بھی ایسا جس کو کوہ ندا سے
ہر لمحہ آواز آتی تھی
جانے والو! یاد رہے اس راہ نکلنے والے
لوٹ کے آ نہیں سکتے
لیکن جن کو رنگوں کی مہکار بلائے
وہ روکے سے رک نہیں سکتے
جن کے جذبے سچے ہوں
وہ آگ پہ کب چلنے سے ڈرتے ہیں
ہم بھی اپنا مان لیے
راہوں میں گھلتی جان لیے
چلتے آئے، بس چلتے آئے
چاند کی پہلی رات تھی وہ جب
ہم کو یہ احساس ہوا تھا
ہم تو جیون ہار چکے ہیں
اور بہار کا وہ اک لمحہ
جس کو ہم اپنا سمجھے تھے
سینے میں اب کبھی نہ بجھنے والی
آگ اتار کے
رخصت مانگ رہا تھا
اور وہ خوشبو جس کو پا کر
ہم نے یہ سوچا تھا کہ ہم کو
جیون اب تجنے بھی دکھ دے
وقت ہمارے سینے میں اب
چاہے جتنے زخم اتارے
ہم پہ زمانہ جتنے چاہے
وار کرے اب
سب ہنس کر سہہ جائیں گے ہم
بھید مقدر کے کیا کہیے
کب وہ کسی پر کھل سکتے ہیں
ہونی تو ہو کر رہتی ہے
کب وہ بھلا ٹل سکتی ہے
خیر جو ہونا تھا سو ہوا وہ
اب تو سب کچھ بیت گیا ہے
لیکن پھر بھی ہونے کا دکھ
کم تو نہیں ہے
اور اس دکھ کا بوجھ اٹھائے
درد بھرا یہ جیون اپنا
ان راہوں کی سمت رواں ہے
انت میں جن کے آ جاتا ہے
آخری موڑ نہ ہونے کا
پہلا تارہ پہلا سا دن
پہلی تتلی اور وہ پہلی چاند کی رات
سب کچھ پل میں بیت گیا ہے
اور اب آخری موڑ سے پہلے
بیتے خوابوں کی گلیوں میں
اپنی بکھری ذات کے ریزے
لمحہ لمحہ چنتا ہوں
آنے والے وقت کی چاپ کو سنتا ہوں
اور سوچتا ہوں
کیا وہ سب کچھ جس سے
میری ذات کا رشتہ تھا
وہ سب کچھ پل میں بیت گیا ہے
کیا وہ سب کچھ جس سے میں
اب وابستہ ہوں
یوں ہی پل میں بیت رہا ہے
- کتاب : Zehn-e-Jadeed (Pg. 184)
- اشاعت : 2000
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.