گو گلستان جہاں پر میری نظریں کم پڑیں
اور پڑیں بھی تو خدا شاہد بہ چشم نم پڑیں
کر رہی تھی فصل گل جب راز قدرت آشکار
جب اگلتی تھی زمیں گنجینہ ہائے پر بہار
خون کے آنسو بھرے تھے دیدۂ نمناک میں
مختلف شکلیں تھیں غم کی چہرۂ غم ناک میں
فطرتاً دل میں نہ تھا میرے کبھی ارمان عیش
بند کر لیتا تھا آنکھیں دیکھ کر سامان عیش
کیا کہوں اے ہم نفس سیر چمن کی داستاں
گل تھے جب شبنم بکف آنکھیں تھیں جس دن خوں چکاں
آبشاروں کے مقابل بیٹھ کر رویا ہوں میں
خار صحرا کے بچھا کر چین سے سویا ہوں میں
صبح کو جب کروٹیں لیتی تھیں نہریں باغ میں
کیا کہوں کیسی چمک اٹھتی تھی دل کے داغ میں
میں نے دیکھی ہیں یہاں تاروں بھری راتیں بہت
اور کی ہیں فطرت خاموش سے باتیں بہت
کیا بتاؤں دل میں میرے ایک برچھی سی گڑی
صبح کو پہلی کرن سورج کی جب مجھ پر پڑی
میرے نظارے میں مضمر تھا مرا حال تباہ
آبلہ بن کر ابھر آتی تھی میری ہر نگاہ
رات کی تاریکیوں میں دل بہلتا تھا کبھی
پر خطر ویرانیوں میں میں ٹہلتا تھا کبھی
کیا بتاؤں میں بھڑک اٹھتے تھے کیوں کر دل کے داغ
جب چمن کرتا تھا روشن تازہ کلیوں کے چراغ
اشک باری میں بسر دنیا کی راتیں میں نے کیں
بے کسی میں ایک اک ذرے سے باتیں میں نے کیں
ڈبڈبا آتی تھیں آنکھیں کوئی ہنستا تھا اگر
تھی نشاط زندگی میری نظر میں پر خطر