لیو تالستائی
ہے جو راہ زندگی میں پیچ و خم کا اک مقام
یا امارت میں ہے جو جاہ و حشم کا اک مقام
مفلسی میں ہے جو فکر و رنج و غم کا اک مقام
ہے تمدن میں وہی اہل قلم کا اک مقام
یہ بدل دیتے ہیں دل کی دھڑکنوں کو پیار سے
کم نہیں ہوتا قلم کا زور کچھ تلوار سے
ہوتے ہیں اہل قلم ہی ملک و ملت کا نشاں
دور ماضی کے تمدن کی یہی ہیں داستاں
اور دور حال کے حالات کے ہیں ترجماں
بلکہ کہہ سکتے ہیں ان کو قوم کے روح رواں
آئنہ ہوتے ہیں یہ ملت کے احساسات کا
اور پیمانہ ہیں گویا ملک کے حالات کا
تالستائی تھا جو دنیا کے ادیبوں کا امام
ہند میں واقف ہے اس کے نام سے ہر خاص و عام
روس میں پیدا ہوا تھا وہ ادیب خوش کلام
اور پھر دنیا میں چمکا صورت ماہ تمام
تھی حمایت اس کی حاصل ان کو جو محکوم تھے
اس کی نظروں میں تھے سارے ملک جو مظلوم تھے
جب کیا تصنیف ناول جنگ اور امن و اماں
روس کے مظلوم انسانوں کی خونی داستاں
غازیان جنگ آزادی کا سب لکھا بیاں
پھر دیا پیغام ان کو تھے جو میر کارواں
نوجوانوں کو دیا اک عزم و ہمت کا پیام
ان کو سمجھایا غلامی میں ندامت کا مقام
حال سب محکوم ملکوں کا اسے معلوم تھا
حوصلہ ان کا بڑھایا جس قدر ممکن ہوا
اور ان کی کشمکش کو غور سے دیکھا کیا
خوش ہوا وہ ملک جب بیدار کوئی ہو گیا
سن ستاون میں لڑی ہم نے جو آزادی کی جنگ
اس سے وابستہ رہی تھی تالستائی کی امنگ
بربریت کی اندھیری شب میں پروانہ تھا وہ
شمع آزادی پہ مٹ جانے کو دیوانہ تھا وہ
جڑ ہلا دی ظلم کی اک ایسا مستانہ تھا وہ
جام عظمت کے دئے اک پیر مے خانہ تھا وہ
گورکی لینن و گاندھی نے کیا ہے احترام
ہم شفاؔ اس دیدہ ور کو پیش کرتے ہیں سلام
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.