لانگ ڈسٹینس ریلیشن شپ
میں اپنے شہر تصور میں ایک مدت سے
جہان بھر کے مسائل سے کٹ کے بیٹھا تھا
وبائے موت ادھر سے گزر کے جا بھی چکی
میں بے خبر ترے غم سے لپٹ کے بیٹھا تھا
تو جانتی ہے عذابوں کی تیز بارش سے
ترے خیال کی چھت نے بچائے رکھا مجھے
جو تیرے خواب تری گفتگو میسر تھی
انہیں اثاثوں نے انساں بنائے رکھا مجھے
میں مطمئن تو بہت تھا مگر کئی دن سے
شدید حسرت قربت کی دھوپ آنے لگی
میں اپنے شہر تصور میں کتنے عیش سے تھا
یہاں بھی تلخ حقیقت مجھے چڑھانے لگی
میں انتظار مسلسل کا استعارہ نہیں
تری نگاہ میں تحریر ہونا چاہتا ہوں
جو فاصلوں نے اکٹھا کئے ہیں غم ان پر
بلک بلک کے ترے ساتھ رونا چاہتا ہوں
میں تیری انگلی پکڑ کر ستارے گنتے ہوئے
حنا کا رنگ خلاؤں میں بھرنا چاہتا ہوں
دریچے وا ہوں اندھیرا ہو راستے چپ ہوں
میں اس فضا میں کوئی بات کرنا چاہتا ہوں
میں صبح و شام یہی خواب بنتا رہتا ہوں
کہ تو ملی تو میں ایسے گلے لگاؤں گا
کچھ اس طرح ترے چہرے کو ہاتھوں میں بھر کر
ترے لبوں پہ لبوں سے دیے جلاؤں گا
دبا ہوا ہوں انہیں حسرتوں کے بوجھ تلے
اب انتظار کے صدمے اٹھا نہ پاؤں گا
تو اس برس بھی اگر مجھ سے مل نہیں پائی
بتا رہا ہوں میں اندر سے ٹوٹ جاؤں گا
تمام گوشے مری دھندلی زیست کے روشن
سیاہ رات کی نادانیوں سے ہوں شاید
وہ مسئلے جو دلاسوں سے حل نہیں ہوتے
وہ تیرے جسم کی عریانیوں سے ہوں شاید
میں جانتا ہوں کہ عریانیوں سے بڑھ کر ہے
جو تیرے ذہن میں تصویر ہے محبت کی
ی باتیں تجھ کو ہوس ناک لگ رہی ہوں گی
کہ تو نے میری تمنا نہیں عبادت کی
تجھے یہ لگتا ہے اسباب وصل کچھ بھی نہیں
بدن اداسی پہ چلمن نما قبائیں ہیں
میں جن کو سن کے بہت بے قرار رہتا ہوں
وہ میرے دل کی نہیں جسم کی صدائیں ہیں
خرد کے دائروں میں قید ہو چکی لڑکی
میں تیری سوچ کے ہم راہ بہ نہیں سکتا
تو کار دنیا میں مصروف ہو گئی ہوگی
پر اضطراب جدائی میں سہ نہیں سکتا
تری تمام دلیلوں کی قدر ہے لیکن
فقط دلیلوں سے سب خواہشیں نہیں بھرتیں
بدن کی اپنی ضرورت ہے دل کی اپنی طلب
گلوں کا کام کبھی خوشبوئیں نہیں کرتیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.