Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مائے نی

MORE BYنسترن احسن فتیحی

    کتنی اچھی تھی وہ زمیں مائے

    جہاں تم میرے ساتھ رہتی تھی

    بستر پر راتوں کو تم مجھ کو

    سیف الملوک اور

    پریوں کی کوئی کہانی سناتی تھی

    آسمان میں پورا چاند دیکھ کر

    مجھے تامچینی کی تھالی میں

    تمہاری روٹی یاد آتی تھی

    مچل کر میں جب روٹی بنانے کی

    تم سے ضد کرتی تھی

    تو ہنس کر ٹالتی مجھ کو

    تم یہ کہتی تھیں

    پہلے بڑی تو ہو جاؤ

    نور تڑکے سورج کی کرنوں میں

    تمہاری مسکراہٹ جگمگاتی تھی

    مجھے بکریوں کے پیچھے بھیج کر

    جب اپنے کاموں میں

    تم مجھ کو بھول جاتی تھی

    تو وادی کی نرم گھاس پر پھدکتے

    ہوا سے باتیں کرتی تھی

    تتلیوں کو ہولے سے پکڑ کر

    ہمیشہ چھوڑ دیتی تھی

    تم نے کہا تھا مائے، کسی کو دکھ نہ پہچانا

    کہ تم اچھی بچی ہو

    پریاں چڑیوں کے بھیس میں آ کر

    دانہ چگیں گی میری ہتھیلی سے

    جب کوئی چڑیا چہچہاتی تھی

    میں کھلکھلا کر زور سے ہنستی

    مگر امی اب مجھ کو

    زمیں کی طرف دیکھ کر

    ڈر سا لگتا ہے

    وہ کون تھے مائے

    جنہوں نے میری بکریوں چراگاہوں سے چھین کر مجھ کو

    اندھیروں کے حوالے کر دیا مائے

    اور وہاں سے بھیجتے وقت مجھے تم سے

    ملنے بھی نہ دیا

    وہ انسان تو نہ تھے مائے

    مگر وہ

    انسانوں جیسے دکھتے تھے

    میں تو اچھی بچی تھی

    تم بے شک پوچھ لینا

    چڑیوں سے تتلی سے

    ہواؤں سے جھیل کناروں

    کنول کے پھولوں سے

    سرسراتے ناگ کب آئے

    تم پوچھنا اس وادی سے پہاڑوں سے

    میری بکریوں سے اور ابا سے

    مجھے تو اس دھرتی سے پیار تھا کتنا

    میں تمہاری طرح روٹی بناتی

    جب بڑی ہوتی

    ڈھک کر آنچل سے سر کو

    پیار سے کھانا کھلاتی

    بس اتنا ہی تو خواب تھا میرا

    مگر ان لوگوں نے

    مجھے چیرا تھا مائے

    آری سے بجلی کے ننگے تاروں متعفن سانسوں سے

    تمہیں یاد ہے مائے

    مجھے دوڑتے بھاگتے

    جب کبھی چوٹ لگتی تھی

    میں دوڑ کر آتی تھی

    تمہیں اپنی چوٹیں دکھاتی تھی

    دعا پڑھ کر تم پھونک دیتی تھی

    مگر اس دن نہ آئیں تم

    میں کتنا تڑپی تھی

    دعاؤں کے سب حصار کیوں ٹوٹ گئے مائے

    تم نے کب بتایا تھا

    کوئی درد ایسا بھی ہوتا ہے

    جو موت بن کر ڈور کاٹ دے سانسوں کی

    اور ناسور بن کر

    تمہارے دل میں ٹھہر جائے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے