ماہ رو
تو دریچوں سے آتی ہوئی روشنی
ماہ رو
تیری نظمیں سوالات کرتی ہوئیں
رنگ بھرتی ہوئی
تیری آواز میری سماعت میں رس گھولتی
جیسے بربط کوئی گود میں رکھ کے فطرت میں کھویا ہوا
گیت گاتے ہوئے
اور بھٹکے ہوئے ان پرندوں کو رستہ دکھاتے ہوئے
شام کے بعد خیموں میں جلتا دیا
تو حقیقت کوئی
ڈھونڈنے میں جسے اک زمانہ لگے
تیرا احساس آنکھوں میں خوابوں کا جھرمٹ
جنہیں دیکھ کر ایک مردہ بدن سانس لینے لگے
تو سمندر ہے
جس کے لئے سارے بھٹکے ہوئے دریا اپنے کناروں سے باہر تری جستجو میں رواں
ایک حیرت کدہ
تیرا چہرہ وہ چہرہ
جسے دیکھ کر کتنی صدیوں سے لپٹے ہوئے گرد سے آئنے صاف ہونے لگے
ساز بجنے لگے
وجد میں قافلے
راہ بھولے ہوئے سارے ملنے لگیں
جن کو تو مل گیا
خود سے ملنے لگے
رقص کرنے لگے
ماہ رو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.