مائکہ
میں نے چاہا تھا کوئی اجالے سا ہاتھ
میری انگلی پکڑ کر مجھے آگے بڑھنا سکھائے
مدرسوں دفتروں شاہراہوں مکانوں دوکانوں
تلک لے چلے
لیکن ایسا ہوا
جس جگہ آنکھیں کھولی تھی میں نے
وہاں ہاتھ سارے روٹی بنانے پہ مامور تھے
خوف آتا تھا گھر سے نکلتے ہوئے
ڈگمگاتے قدم
گنگ الفاظ
بے بس نگاہیں لیے
آگے بڑھتی تھی میں
چونکہ رکنا کوئی حل نہیں تھا
سو میں اپنی گلی سے نکل کر جہاں بھی گئی
اجنبی میری سہمی ہوئی ذات پہ
ڈرتے ڈرتے ادا ہوتی ہر بات پہ
فقرے کستے رہے
اور ہنستے رہے
تب سے اب تک نہیں یاد
کتنے ہی دریا بہے
کب گلابی بدن سانولا ہو گیا
اجلی بے داغ آنکھوں میں
کب درد کے زرد موسم اتر آئے
کب آئنہ دھول سے بھر گیا
لیکن اب دفتروں شاہراہوں مکانوں دوکانوں میں
جاتے ہوئے خوف آتا نہیں
آسمانوں کو چھوتی عمارات سے
اجنبی سر زمینوں سے
اونچے قدوں
تیز رفتار دریاؤں سے خوف آتا نہیں
اب میں چلتی ہوں تو میرے ہم راہ چلتی ہیں نظمیں مری
ماں سے نظمیں
بھائی سے نظمیں
وقت
تو نے جو میرا گلابی بدن سانولا کر
اجالوں سی نظمیں مجھے دی ہیں
تیرا بہت شکریہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.