مرے ٹھنڈے بدن کو آنچ دی ہے اپنے سینے کی
مرے سوکھے لبوں کو اپنے ہونٹوں کی نمی دی ہے
مری سانسوں کو اپنی دھڑکنوں کی راگنی دی ہے
ترا مقروض ہوں میں
نہ سویا فرش پر تو مامتا کا بن گئی بستر
کبھی برسات میں ٹپکا پرانے پھونس کا چھپر
مجھے بانہوں میں اپنی کس لیا اور بچھ گئی مجھ پر
مری تنہائیوں کو لوریوں سے گدگدایا ہے
مرے اشکوں کو تو نے اپنی پلکوں پر اٹھایا ہے
کہیں تب جا کے یہ معصوم بچپن مسکرایا ہے
تری انگلی پکڑ کر دوپہر کی دھوپ میں اکثر
پھرا ہوں ننگے پاؤں اور اپنی بے کسی دیکھی
تری آنکھوں میں لیکن زندگی کی روشنی دیکھی
مری خاطر اٹھائے ہیں مسلسل بار غم تو نے
مری خاطر زمانے بھر کی تو نے خاک چھانی ہے
مری خاطر اندھیروں سے کرن کی بھیک مانگی ہے
ترا مقروض ہوں میں زندگی اب تیری خاطر ہے
جو کل گزرا وہ آنسو تھا اسے آنکھوں سے ٹپکا دے
نوید صبح ہستی ہوں مرے ماتھے پہ بوسہ دے
ترا مقروض ہوں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.