ماس کی عورت
وہ حاملین پسلیاں
جو آدمی کے کنکال کو
ناؤ بنا کر
کھینا چاہتی ہیں آج
باد مخالف کے برعکس
موج حوادث کے خلاف
اپنے مفاد میں
تو اس میں
کیا ہے ان کا قصور
تنہائی سے جو اچانک
گھبرا گئے تھے حضرت آدم
بس اسی بات کا سارا فسانہ
سارا فتور
پھر تو پسلیٔ آدم سے
نمو پزیر ہوا وجود زن
اسی وجود زن سے پڑا
شیاطین میں رن
حتی کہ
گندم کھا لینے کی پاداش میں
باغ بہشت کے مکیں
آ گئے زیر زمیں
گردش فلک کی زد میں
ادھر
شجر ممنوعہ کا پھل چکھنے کے سبب
توبہ کرتے رہے حضرت آدم
اور بہاتے رہے تمام عمر
اپنے اشک انفعال
اب جو فضا بدلی ہے اچانک
تو۔۔۔۔۔
ان ہی حاملین پسلیوں نے
گندم کی ترغیب کو بھول کے
مساوی حق کا
اٹھایا ہے سوال
تو اس میں
کیا ہے ان کا قصور
تنہائی سے جو اچانک
گھبرا گئے تھے حضرت آدم
بس اسی بات کا ہے سارا فسانہ
سارا فتور
فیصلہ
تب بھی آدمی کے ہاتھ میں تھا
فیصلہ اب بھی ہے
آدمی کے ہاتھ میں
آیا پرستش کرے یا حقوق مساویانہ دے
اور جسے چاہے بڑھ کر اپنا لے
ایک طرف
نرم گرم ماس کی عورت ہے
تو دوسری طرف ہے
جنت کی حور
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.