ماورا
بیسویں صدی کے آخری برسوں میں
ایک گہراتی ہوئی شام کو
جب پرندوں اور پتوں کا رنگ سیاہ ہو چکا تھا
اور دکھ کا رنگ ہر رنگ پر غالب تھا
ماں ٹوٹ چکی تھی
محبوبہ روٹھ چکی تھی
ہفتہ وار تعطیل کی فراغت سے مطمئن
سرشاری کے ایک لمحے کو بے قرار
شاعر
لکھنے بیٹھا
گرد و پیش کی دنیا
نہایت آہستگی سے
خفیف پردوں سے چھنتی ہوئی
غائب ہو گئی
اور پوری کائنات محدود ہو کر
میز کے رقبے میں سمٹ آئی
شاعر نا معلوم کتنے زمانوں تک
مہبوط بیٹھا فضا کی سرگوشیاں سنتا رہا
سائیں سائیں کرتی خاموشی میں
معتبر الفاظ کی تلاش و جستجو میں
غلطاں و پیچاں
کہ یک لخت رات کی شہ رگ سے
کئی خون کے فوارے چھوٹے
اور سسکتی سیڑھیوں چیختے دروازوں کے آہنگ پے
میز پر پڑی کانچ سے جھانکتی
مارکس کی تصویروں پر
اک تارا بجاتے ہوئے نیپالی بچے کی تصویر
اور پاش کی نظموں پر
موسلا دھار آنسوؤں کی بارش ہونے لگی
اور باہر رات کی تاریکی میں کتے بھونکنے لگے
نصیبوں جلی بانکی تلنگن رات جاری تھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.