راہ چلتے ہوئے اک موڑ پہ دور از امید
آنکھ جھپکی تو مرے سامنے وہ شوخ پری پیکر تھا
میرے پہلو سے وہ گزرا مگر اس طرح کہ چہرے پہ تھا ہاتھ
ایک میٹھی سی خلش چھوڑ گئی دل میں یہ جاں سوز ادا
ماورائی سایہ جلوہ جو گریزاں ہے مری نظروں سے
میری بانہوں کی حرارت میں کبھی شمع کے مانند پگھل جاتا تھا
قرب کی آنچ سے یہ پیکر نور
عشق کی آتش سیال میں ڈھل جاتا تھا
ایک شعلہ سا رگ و پے میں مچل جاتا تھا
یہ کوئی دشت تصور کا حسیں موڑ نہ تھا
جہاں رم دیدہ غزالان تخیل نے اسے دیکھا ہو
یہ کوئی خواب دل آویز نہ تھا
موڑ اوجھل ہوا نظروں سے تو پھر راہ وہی لوگ وہی
صرف وہ چہرہ وہ آنکھیں وہ خط و خال نہ تھے
جن سے بڑھ کر کوئی نظروں کا شناسا بھی نہیں
ہائے وہ لمحۂ پراں وہ دل آویز ادا
یوں ملے جیسے کبھی میں نے انہیں دیکھنا چاہا بھی نہیں
ہے روایت کہ خداوند خدایان جہاں
اپنی رویت سے مشرف یوں ہی فرماتا ہے ان بندوں کو
جو اس کی لگن میں شب و روز
حمد و تسبیح و ثنا اور مناجات و دعا کرتے ہیں
صرف اک دید کی حسرت میں جیا کرتے ہیں
آنکھوں میں کاٹ دیا کرتے ہیں رات
تب کسی لمحے میں وہ ذات منزہ کہ جو ہے خاتمۂ جملہ صفات
شعلۂ حسن ازل روح جہاں جان حیات
صبح کے نور کے مانند نگاہوں کو منور کرتا
عرش سے فرش پہ کرتا ہے نزول
اور اسی لمحہ وہ بد بخت وہ مرتاضی تسبیح و رکوع و سجدہ
نشۂ تشنگی دید سے چور
خانقاہوں کے کسی گوشے میں سو جاتے ہیں
جس طرح حسرت دیدار میں اک عمر گزاری ہی نہیں
آرتی جیسے کبھی اس کی نگاہوں نے اتاری ہی نہیں
اور وہ رب جہاں راحت جاں
ماورائے نگہ کون ومکاں
منہ چھپائے ہوئے ہاتھوں سے گزر جاتا ہے
حسرت دید در و بام سے سر پھوڑتی رہ جاتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.