میری آنکھیں ہیں کہ ویران سا مرقد کوئی
کسی صحرا میں کوئی سمت نما ہو جیسے
سرد راتوں کا کوئی چاند تھکن سے مدہوش
رات کے پچھلے پہر نوحہ سرا ہو جیسے
میری آنکھیں ہیں کہ اک خواہش بے رنگ لیے
جانے کس دور کے منظر کی طلب میں غلطاں
بے سبب راہ نوردی کا اشارہ دے کر
میرے سپنے مری پلکوں سے بھی مستور کریں
مجھ کو احساس ہے ہمدم کہ بڑی چاہت سے
تو چلی آئی روایات کے کانٹے چن کر
نقش پا راہ میں بوتا گیا زخموں کے گلاب
مجھ کو معلوم ہے اے دوست مری جان مری
تو نے احساس کے تاروں سے کئی خواب بنے
میرے پیروں سے رواجوں کے نوکیلے کانٹے
پھول سمجھے کبھی چومے کبھی پلکوں سے چنے
میں کہ ہر بار بغاوت کی علامت ٹھہرا
اب کے یوں ہے کہ ترے قرب کے موسم کے عوض
آتش وقت میں ایندھن کی طرح جلتے ہوئے
ناتواں جسم پہ اک زخم لگا ہے گہرا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.