مد و جزر
شام ہنگام تو ہم ہے
تصور کے کھٹولوں پہ سجی
اپنے اجداد کے ایام کی
تصویریں دمک اٹھی ہیں
ایسے لگتا ہے کہ
ذروں سے نکلتے تھے قمر
زندگی رقص کناں
نازاں و شاداب ہوا کرتی تھی
ندیاں دودھ کی بہتی تھیں
معطر تھی ہوا
محفل ہست میں
ہر سو تھے رسیلے پنگھٹ
سبز پیڑوں پہ کھلا کرتے تھے نغموں کے گلاب
وحشت آتش اوقات کی علت تو کجا
کوئی درماندگی کے نام سے واقف بھی نہ تھا
کتنے منظر تھے جنہیں خلد کے منظر کہیے
روپ کی نگری میں سنگیت کے ساگر کہیے
آج چہروں پہ مسرت بھی سراسیمہ ہے
وحشت آتش اوقات نے
آفات کے شعلے پھینکے
ہر طرف موت کے جوالا مکھی کا لاوا
سانس لینے سے پگھل جاتے ہیں اڑتے پنچھی
ارض تہذیب کے سینے میں نمو یافتہ زہریلے جذام
قاف گلفام کی آبادی کو لے ڈوبے ہیں
وقت کی گود میں سوکھے بچے
چار سو گھومتے لاغر رانجھے
نئے چنگیز نئے نادر شاہ
آہن ہو شربا کے شب دیز
کاہن مکتب نخشب کے
فسوں کار بگولے ہیں کہ
سرسام کے سر چشمے ہیں
گونجتے شہ پر آسیب کے خونی پنجے
آدم شائق فطرت کے لیے
قفل ابجد بھی ہیں
زنجیریں بھی
روپ کی نگری میں بہروپ کے تاجر آئے
دور دیسوں کے فسوں کار
زر کاغذ راحت کے لیے
چار سو کشتوں کے پشتے بھی لگے ہیں دیکھو
کس قدر خون بہا باقی ہے
آنکھیں پتھرائی ہیں ماؤں کی
غلامان رسوم امواج
اپنی اقلیم کی معراج
کہاں بیٹھے ہیں
ذرے ذرے سے نکلتے ہیں اندھیرے بچھو
ندی نالوں میں ہواؤں میں لہو
خلد مشرق میں لہو
جنت مغرب میں لہو
روپ کی نگری میں
سنگیت کے ساگر میں لہو
میری مسجد میں لہو
آپ کے مندر میں لہو
دیکھنا غور سے اے چارہ گرو
میری بکل میں لہو
آپ کی چادر میں لہو
- کتاب : Pakistani Adab (Pg. 159)
- Author : Dr. Rashid Amjad
- مطبع : Pakistan Academy of Letters, Islambad, Pakistan (2009)
- اشاعت : 2009
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.