مگرمچھ کے آنسو
سنتے ہیں یاد مصیبت میں خدا آتا ہے
آسرا اک یہی مجبور کی تقدیر میں رہ جاتا ہے
''کھول دو بند کلیساؤں کے در کھول بھی دو
مانا مانوس نہیں ہاتھ دعاؤں سے دعائیں مانگیں
مملکت پر کہیں خورشید نہ ہو جائے غروب
حکم دے دو کہ سبھی اپنے خداؤں سے دعائیں مانگیں''
جی پہ بن جائے تو ذلت بھی اٹھا لیتے ہیں
سنتے ہیں باپ مصیبت میں گدھے کو بھی بنا لیتے ہیں
''ناگ ہے اپنا معاون تو کوئی بات نہیں
کام لینا ہے ہمیں ناگ خزانے پہ بٹھا لو اپنے
شہد کا گھونٹ سمجھ کر سم قاتل پی جاؤ
کسی قیمت کسی اجرت پہ اسے ساتھ ملا ملا لو اپنے''
سارا دھن جاتا ہے تو نصف لٹا دیتے ہیں
سنتے ہیں بچے جو چیخیں انہیں افیون کھلا دیتے ہیں
''سب کو بخشیں گے مصائب کی سلاسل سے نجات
جنگ لڑتے ہیں صداقت کی، مساوات کی اعلان کرو
اپنی من مانی ہی آخر میں کریں گے اب تو
دہر کو وعدۂ پر کیف سے منت کش احسان کرو
ناگ ڈستا ہے، اسے دودھ پلاؤ کتنا
سوکھی بیری سے کبھی بیر نہیں جھڑتے، ہلاؤ کتنا''
''عہد آلام بھی معدوم، خدا بھی معدوم
کوئی خدشہ نہیں پھر سے ستم و جور کو ارزاں کر لو
فتح کا جشن منانا ہے مگر دھوم کے ساتھ
اپنے گھر حسن سے یا خون کی بوندوں سے چراغاں کر لو
اپنے محکوموں کی ہستی بھی کوئی ہستی ہے
یہ تو وعدوں پہ بھی جی سکتے ہیں ان سے نئے پیماں کر لو''
تیرگی بڑھتی ہے طوفان امڈ آتا ہے
بدلیاں چھا کے برستی ہیں فلک پھر سے نکھر جاتا ہے
- کتاب : aazaadii ke baad delhi men urdu nazm (Pg. 317)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.