محبوبہ کے لئے آخری نظم
پہلے جتنی باتیں تھیں وہ تم سے تھیں
تیرے ہی نام کی ایک ردیف سے سارے قافیے
بنتے اور بگڑتے تھے
میں اپنے اندھے ہاتھوں سے
تیرے جسم کے پراسرار زمانوں کی تحریریں پڑھ لیتا تھا
اور پھر اچھی اچھی نظمیں گھڑ لیتا تھا
تو بھی تو کاغذ کے پھولوں کی مانند
ہر موسم میں کھل جاتی تھی
اور میں ہجر و وصال کی خشکی اور تری پر
تیرے لیے ہر حال میں زندہ رہ لیتا تھا
اپنے لیے بھی تیری طرف سے
ساری باتیں کہہ لیتا تھا
تیری صورت میرے ہونے اور نہ ہونے
جاگنے سونے کی اس دھوپ اور چھاؤں میں
ایک ہی جیسی رہتی تھی
اور میری سانسوں کا بخت تمہارے ہی پلو سے بندھا تھا
لیکن اب تو تیری ساڑی کے سب لہریے
میرے جسم کو ڈس بھی چکے ہیں
اب تو جاؤ
میری پرانی نظموں کی الماری میں آرام سے جا کر سو جاؤ
کیونکہ میں اب اپنے آپ سے باتیں کرنا چاہتا ہوں
- کتاب : siip-volume-35 (Pg. 145)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.