تری سانسیں حسیں موسم کو تھامے دور کی راہوں پہ جا نکلیں
مگر پھر بھی مری آنکھوں کے ساحل پر یہ لکھا ہے
کہ تو اک دن ہمیشہ کی طرح ہنستی مہکتی
شام کی پازیب جھنکاتی مرے گھر لوٹ آئے گی
مگر اس خواب کی کچی کلی جب بھی مہکنے کو ذرا تڑپی
تو سرکش آندھیاں چل دیں
سو اب تو ہی بتا مجھ کو
میں ہاتھوں کی لکیروں کے سفر پر جاؤں تو کیسے
میں ٹھہرا عکس کا قیدی
جو سوچوں کے سیہ پردے پہ تصویریں بناتا ہے
مجھے شہروں کے جنگل سے کہاں نروان ملنا تھا
یہ تیرے خواب کے اندھے بیاباں آج میرا گیان ٹھہرے ہیں
میں کاندھوں پر ازل سے آسماں رکھے
زمانوں کی تہوں میں گم
اسی پل کے دوراہے پر کھڑا آواز دیتا ہوں
کہ جس لمحے تری سانسیں
حسیں موسم کو تھامے دور کی راہوں پہ جا نکلیں
دلوں کے گنبدوں میں کوئی بھی نغمہ نہیں گونجا
نہ اندھی رات کے در پر کسی کی دستکیں گونجیں
میں خود پہ منکشف ہونے کو ہوں آخر
کہ میں اپنے تعاقب میں
تری یادوں کے دھندلے راستوں کا اک مسافر ہوں
سنہرے سورجوں کی ایک چنگاری کا طالب ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.