مری دونوں آنکھیں جو بیدارئ شب کی شاہد رہیں ہیں
مری دونوں آنکھیں جو سونے کے ناٹک سے اکتا چکی ہیں
مری دونوں آنکھیں جو خوابوں سے اس درجہ محروم ہیں جیسے تو میرے چھونے سے ہے
مری دونوں آنکھیں جو اس دکھ کی ماری ہوئی ہیں کہ ان کے کہے
کا کوئی سننے والا بچا ہی نہیں ہے
عجب ہے کہ تیری توقع میں بھی صرف باتیں ہیں میری
تجھے ان کو پڑھنے کی فرصت نہیں ہے
مری دونوں آنکھیں جو چوبیس پچیس کی عمر میں بھی پچہتر کی مانند دکھنے لگی ہیں
وہی دونوں آنکھیں جو تیرے لیے تب سفید و سیہ رنگ کی ایک تمثیل تھیں اب بجھے پیلے پن کی نمائندہ ہیں
مری دونوں آنکھیں جو ہر روز کالج میں دیدار سے تیرے کھل جاتی تھیں اب وہ تیرے نہ دکھنے سے مرجھا چکی ہیں
تجھے ویڈیو کال پر دیکھنا کوئی مجبوری ہے جو پتہ ہی نہیں کب مچل جاتی ہے اور تقاضائے بد میں بدل جاتی ہے
میں پریشان ہوں اب مری بات سن
ان کی خشکی سمجھ آ مرے پاس آ
ساتھ کیفے پہ چل اور مرے سامنے والی کرسی پکڑ
ٹکٹکی باندھ لے میری آنکھوں کو پڑھ
ان میں جنبش بڑھا آخری بار سلگا یہ دونوں دیے
تاکہ یہ دو دیے ہی مری نارسائی کے اسباب ہوں
تاکہ یہ دو دیے تیرے حسن و کشش کے سبک دریائے جاں میں غرقاب ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.