محسوس کرنا
مجھے حسرت ہے
میرا نظم کردہ فلسفہ تم کو سمجھ آئے
تمہیں یہ فلسفہ باور کرانے کے لیے میرے سوا افلاک سے اب کوئی بھی آدم نہیں گرنا
تمہارے جسم سے مجھ تک جو دوری ہے
تمہیں معلوم ہو یہ ایک تھیوری ہے
آدم نام کا دھبا
زمین و آسماں کا فاصلہ طے کر کے تم کو صرف اتنا بولنے آیا ہوں
سن لو
مجھے آنکھوں کے ہر ویران سپنے کی قسم ہے
تمہارے جسم کی تخلیق کے دوران جو مٹی بچی تھی
اسی مٹی سے میری روح پیچیدہ بنی ہے
حریم من
برہمن نام کی اونچی پہاڑی سے محبت نام کا جھرنا نکلنے تک
مجھے شودر سمجھنا
اگرچہ میں تمہاری پاک مٹی سے بنا ہوں
مجھے تصویر کرنا
حنا کی انگلیوں پر پھوٹتے رنگوں سے خود میں رنگ بھرنا مسکرانا
اور مجھ کو سوچ لینا بھول جانا
سوائے لمس میں دنیا کے ہر جذبے کی خالص شکل میں تم کو ملوں گا
ڈھونڈھنا
تعویذ مت کرنا مجھے اپنے گلے کا
ہمارے بیچ چھو لینے کی آسانی نہیں ہے
حریم جان
میں ایسا صحیفہ ہوں جو اترا ہوں تمہارے پاک سینے میں
اگر تم چاہتی ہو میں امر ہو جاؤں تو پھر
مجھے محسوس کرنا
ساحلی مٹی سے آدم ذات کی تخلیق ہونے تک
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.