Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میں عبداللہ سوچ رہا ہوں

ڈاکٹر عبدالله

میں عبداللہ سوچ رہا ہوں

ڈاکٹر عبدالله

MORE BYڈاکٹر عبدالله

    صدیوں پہلے

    اپنے پرکھے

    جنگل ویرانوں میں رہتے

    سانپوں اور خونخوار درندوں

    سے بچ بچ کر

    یا لڑ لڑ کر

    زندہ رہنے کے سارے گر سیکھ گئے تھے

    آج کی دنیا میں ہم نے بھی

    سچا جھوٹا ساتھ نبھا کر

    دھوکہ دے کر دھوکا کھا کر

    اپنوں اور بیگانوں سے بھی

    یا قربت یا دوری رکھ کر

    زندہ رہنا سیکھ لیا ہے

    فرق ہے اتنا

    اک خونخوار درندے کا تو

    اپنی کھال سے باہر آنا

    بھیس بدلنا نا ممکن تھا

    پرکھوں کا اس کو پہچان کے اس سے بچنا

    کوئی مشکل کام نہیں تھا

    لیکن آج کے اندھے یگ میں

    سب انسانوں کے چہروں پر

    کتنے چہرے چڑھے ہوئے ہیں

    ان کے اصلی روپ کو ہم کیسے پہچانیں

    کیسے ان سے خود کو بچائیں

    اس کا ہم کو گیان نہیں ہے

    میں عبداللہؔ سوچ رہا ہوں

    جنگل ویرانوں کے باسی اپنے پرکھوں کا جیون تو

    آج کے یگ میں اپنے جیون

    کے آگے آسان بہت تھا

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے