میں عبداللہ سوچ رہا ہوں
صدیوں پہلے
اپنے پرکھے
جنگل ویرانوں میں رہتے
سانپوں اور خونخوار درندوں
سے بچ بچ کر
یا لڑ لڑ کر
زندہ رہنے کے سارے گر سیکھ گئے تھے
آج کی دنیا میں ہم نے بھی
سچا جھوٹا ساتھ نبھا کر
دھوکہ دے کر دھوکا کھا کر
اپنوں اور بیگانوں سے بھی
یا قربت یا دوری رکھ کر
زندہ رہنا سیکھ لیا ہے
فرق ہے اتنا
اک خونخوار درندے کا تو
اپنی کھال سے باہر آنا
بھیس بدلنا نا ممکن تھا
پرکھوں کا اس کو پہچان کے اس سے بچنا
کوئی مشکل کام نہیں تھا
لیکن آج کے اندھے یگ میں
سب انسانوں کے چہروں پر
کتنے چہرے چڑھے ہوئے ہیں
ان کے اصلی روپ کو ہم کیسے پہچانیں
کیسے ان سے خود کو بچائیں
اس کا ہم کو گیان نہیں ہے
میں عبداللہؔ سوچ رہا ہوں
جنگل ویرانوں کے باسی اپنے پرکھوں کا جیون تو
آج کے یگ میں اپنے جیون
کے آگے آسان بہت تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.