میں کب سے بے خال و خط پڑا ہوں
کہاں ہیں آنکھیں
میں جن میں تیرہ شبی کا تریاق
آسماں پر کھلے ستاروں میں ڈھونڈتا تھا
میں دیکھتا تھا
جو حد ادراک میں نہیں تھا
جو دور ہو کر بھی میرے معروض میں کہیں تھا
میں اپنی پوروں سے پورا چہرہ ٹٹول کے خود سے پوچھتا ہوں
کہاں ہیں ہونٹوں کے سرخ کونے
کسی کے رخسار کی اماوس کی رات میں جو
ستارہ بن کے طلوع ہوتے
جو مسکراتے، تو پھول جھڑتے
جو حرف دو حرف اک کہانی کا ہار بنتے
جو منکشف ہو کے روشنی کا لباس ہوتے
کہاں ہے کانوں کی حیرتی کا شراب خانہ
جہاں پہ آواز
بہتے چشموں کی تازگی کا سراغ لے کر
مری سماعت کا رزق بنتی
میں کس سے پوچھوں
وہ جس سے کھلتے تھے
بارشوں میں مہکتی مٹی کی خوشبووں کے
تمام مفہوم ،اب کہاں ہے
میں کب سے بے خال و خط پڑا ہوں
مرا کوئی سایہ ہی نہیں ہے
سب آئینے جھوٹ بولتے ہیں
کسی کے چہرے کو میرا چہرہ دکھا رہے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.