میں خود سے مایوس نہیں ہوں
میں خود سے مایوس نہیں ہوں
انساں سے مایوس ہوں تھوڑا
دھرتی پر آنے سے پہلے
وہ اور میں ساتھ رہا کرتے تھے
جنت میں
لیکن اس کو صدیاں بیتیں
اب اس سے میرا کیا رشتہ
ویسے وہ بھی مجھ جیسا ہے
میری طرح کھاتا پیتا چلتا پھرتا ہے
ہم دونوں ہم شکل ہیں اتنے
کچھ بھی کرے وہ
چاند پہ جائے دھرتی پر
جنگ کرے اور خون بہائے
آنچ مرے دامن پر آئے
ہم دونوں ہم شکل ہیں لیکن
کیا میں اپنی ماں بہنوں کو
چوراہے پر ننگا کر سکتا ہوں
وہ کرتا ہے
وہ پستانیں جن سے میں نے دودھ پیا
بلوان بنا ہوں
جن پر میں نے شعر کہے
تصویریں بنائیں
کیا میں ان کو کاٹ کے
کتوں کو کھلوا سکتا ہوں
کہتے ہیں کھلوایا اس نے
کیا میں نسوانی پیکر کو
جو میرا موضوع سخن ہے
پھول سے کومل
چاند سے شیتل
کی بوتل
جو میری بیوی کا بدن ہے اس کو
ٹکڑے ٹکڑے کر سکتا ہوں
اس نے کیا ہے
کیا میں اپنی بیٹی سے منہ کالا کر کے
اپنے بھائی بندوں ہم جنسوں کو
بڈھوں جوانوں معصوموں کو
زندہ جلا کر
پھانسی کے تختے پہ چڑھا کر
ان کے لہو کا تلک لگا کر
مونچھ پہ تاؤ دے سکتا ہوں
اس نے دیا ہے
میں خود سے مایوس نہیں ہوں
انساں سے مایوس ہوں تھوڑا
آج ہی سارے اخباروں میں خبر چھپی ہے
اس دھرتی کے اک حصے گجرات میں اس نے
میرے منہ پر تھوک دیا ہے
- کتاب : shab-khoon(shumara-number-45) (Pg. 12)
- اشاعت : 1970
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.