نظم
میں کتنے برسوں سے روز اپنے انا کی ایک پرت
چھیلتا ہوں
لہو لہو ان ہزار پرتوں کی تہہ میں پتھر ہوں
جانتا ہوں
یہ کہکشائیں یہ کائناتیں یہ روشنی کے سیاہ رستے
گزر کے تیری تلاش میں ہیں
کہ ہو نہ ہو تم وہاں کہیں میری منتظر ہو
مجھے یقیں ہے کہ تم میری بات سن رہی ہو
مگر نہیں ہو، کہ یہ جو تم ہو، یہ تم نہیں ہو
مری انا کا کوئی نگر ہو
کہ جس کے روشن سیاہ کوچوں میں
سر کٹے اجنبی بھرے ہیں
میں روح کے ریشمی لبادے ہٹا کے خود سے ملوں گا لیکن
مجھے خبر ہے کہ تم وہاں بھی نہیں ملو گی
کہ تم پرستش کی آرزو کا کوئی بھنور ہو
کوئی خداوند لب ملے تو
کہ اپنی بنجر ادا کے مندر میں مورتی کی طرح کھڑی ہو
ہزار صدیوں سے راہ تک تک کے جم گئی ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.