میں نہ کہتا تھا تم سے
میں نہ کہتا تھا تم سے رہ میں چھوڑ جاؤ گی
عشق اک ریاضت ہے کیسے ٹھیر پاؤگی
آگ کا یہ دریا ہے کیوں کر تیر پاؤگی
میں نہ کہتا تھا تم سے
عشق اک عبادت ہے پیمبری امانت ہے
خاروں سے یہ پر رستہ
کب تلک چلو گی تم
ساتھ چھوڑ جاؤ گی
میں نہ کہتا تھا تم سے
خوف کھاتا رہتا ہوں
مکر سے دغا سے میں
ایسے دوست سے بھی جو
کشتیاں ڈبوتے ہیں
بیچ میں سمندر کے
میں نہ کہتا تھا تم سے
پہلے سوچ لو سو بار
بادباں کے اٹھنے سے
طوفاں کے بیچ جانے سے
چھوڑ تو نہ جاؤ گی درمیاں سمندر کے
اور تم نے ہر اک بار یہ یقیں دلایا تھا
ساتھ جینے مرنے کی لاکھ قسمیں کھائی تھیں
اور میں کہ سادہ دل آ گیا تھا باتوں میں
آنسوؤں میں آہوں میں
جھوٹ کی کتھاؤں میں
جان کر سبھی کچھ کہ
پہلے پانچ کشتی میں چھید کر کے بیٹھی ہو
پر تمہاری صورت جو
تائبوں سی لگتی تھی
دے گئی فریب آخر
اور پھر جو ہونا تھا ہو رہا اک دن
تم کو چھل ہی کرنا تھا
کیسے باز رہتی تم
صدہا وعدے کر کے بھی
لاکھ قسمیں کھا کے بھی
درمیاں سمندر کے
موج میں تھپیڑوں کے
چھید کر کے کشتی میں
ساتویں میں جا بیٹھی
میں نہ کہتا تھا تم سے
پر نہیں نہیں اب تو
اب میں تم سے کہتا ہوں
عشق اک سفینہ ہے
بحر بیکراں ہو یا
پر خطر سمندر ہو
پار خود اترنا ہے
تم کرو اب اپنی فکر
کشتیاں بدلنے کی
آٹھویں یا نویں کی
مانجھی ڈھونڈ لانے کی
کوئی مکر کرنے کی
میں کہ ایک سادہ دل
عشق پر یقیں اول عشق پر یقیں آخر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.