میں نظم لکھتا ہوں!
میں جب تخلیق کا جگنو پکڑتا ہوں
میں جب اندر اندھیرے میں
گندھی مٹی کا پانی
روشنی کی بوند کی خواہش جگاتا ہے
کیمیائی خواب کتنے اہتمام انگیز ہوتے ہیں
بھٹکتی خوشبوؤں کو جمع کرتے ہیں
پہاڑوں پر پڑی بینائیوں کی وسعتوں کو
جوڑ کر ترتیب سے رکھتے ہیں
اور آنکھیں بناتے ہیں
پھر ان میں آنسوؤں کی فصل اگاتے ہیں
مجھے بارش بتاتی ہے
کہ ماتھے سے پسینہ بہہ رہا ہے
تھوک منہ بھر کے نکلنے سے
اپاہج حرکتوں کا زنگ اترتا ہے
اذیت سہنے کی لذت مرے اندر اترتی ہے
میں بستر پر سکڑتا ہوں
نئی اک نظم لکھتا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.