میں
تجلی کے شہنشہ سن
خموشی شور کرتی تھی
میں روتی تھی
بلکتی تھی
کئی بے خواب سی نیندوں میں گم
ماتم کناں تھی میں
سمے کی دھوپ چھاؤں سے پریشاں تھی
مگر اب حال کچھ یوں ہے
مذاق زندگی تو ختم ہو کر ہی نہیں دیتا
لبوں پر قہقہوں کی شدتوں سے خون رسنے لگ گیا ہے
تجلی کے شہنشہ سن
کہ تیری یاد کی حدت سے اکتاہٹ سی اب محسوس ہوتی ہے
محبت کا گھروندا نار دنیا نے جلا ڈالا
جو درپن تھا سنہری خواہشوں کا
اب وہاں پر راکھ باقی ہے
تجھے میری خبر کب تھی
تجھے میری خبر کیوں ہو
کہ تو تو جھوٹی دنیا ہے
وہ دنیا جو مجھے میرے جہاں سے دور کرتی ہے
خدا سے دور کرتی ہے
میں الفت کے سمندر کے جزیرے پر ہوئی برباد تنہا ہوں
یہ بربادی مرا سنگھار ٹھہری ہے
میں اب مانوس ہوں اس سے
میں اب کوئی بھی تبدیلی کبھی بھی سہہ نہیں سکتی
مجھے برباد رہنے دے
مجھے آباد مت کرنا
میں شب زادی ہوں صدیوں سے
میں اپنی ذات کی اندھیر نگری میں تجلی ڈھونڈنے میں محو ہوں
میرے جزیرے پر کبھی آ کر مجھے آواز مت دینا
بظاہر آنکھ سے دکھتی چمک سے مجھ کو نفرت ہے
میں شب زادی ہوں صدیوں سے
تجلی کے شہنشہ سن
مجھے آواز مت دینا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.