میں زیر لب اپنا شجرۂ نسب دہرا رہا تھا
چھٹی بار
وہ دجلہ و فرات کے درمیان
مینارۂ بابل کے سائے میں
مجھ پر منکشف ہوئی
وہ مقدس مینار کی ساتویں منزل پر بیٹھی
آیت در آیت بکھرے ستاروں کی
تلاوت پر مامور تھی
وہ عشتار کے معبد کے شمال میں سائے بانٹتے
باغات معلقہ کو
بار آوری کی دعا دینے آئی تھی
اس کا بے نیاز جسم
ان ہاتھوں کی نارسائی کو پہچانتا تھا
جو اسے چھونے کی تمنا میں
زیر قبا جل رہے تھے
میں نے دو لشکروں کے درمیان
اپنے دادا کے رجز میں کلام کیا
جس کی مٹھی میں قبیلے کی آبرو تھی
میرے عقب میں ہرے جسموں والی عورتیں
آسمانی دف کی لے پر
موت کا ترانہ گانے لگیں
میرا نجیب الطرفین گھوڑا
جس کا شجرہ
میری انگلیوں کی پوروں پر رقم تھا
اور جسے میں اپنی اولاد سے بھی عزیز جانتا تھا
میں نے اس کی زین میں بیٹھنے سے انکار کیا
اور ہوا پر پاؤں رکھتا ہوا
دشمن کے قلب لشکر تک جا پہنچا
مجھے دیکھ کر
سورماؤں کی آنکھیں
ناف تک پھیل گئیں
میں زیر لب
اپنا شجرۂ نسب دہرا رہا تھا
میں نے اپنے پاؤں میں بھاگتے خون کو
مہمیز دی
اور اپنی زہر میں بجھی تلوار
میدان جنگ کے درمیان گاڑ دی
جس کے مرصع دستے پر
زیتون کا اکھوا پھوٹ پڑا
میں اپنی گزشتہ زندگی پر
کف افسوس ملنے لگا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.