مخزن
سفر میرا مقدر تھا سفر میرا مقدر ہے
اندھیروں کی جبیں پر میں نے چھوڑے نقش پا اپنے
میں دریا ہوں
جنم مجھ کو دیا ہے برف پوشی سرد راتوں نے
لکھا ہے میرے صفحوں پر
کہ جب میں قطرہ قطرہ جوڑ کر موج یقیں کا پیرہن پہنوں
تو سب انجان سمتیں میری مٹھی میں سمٹ آئیں
جو پربت باپ ہے میرا
ترس جائے مجھے باہوں میں بھرنے کو
یہ اونچا آسماں جھک کر کبھی میرے قدم چومے
سفر میرا مقدر ہے
سفر میرا ازل میرا ابد میرا یقیں بھی ہے
مرے قدموں کا غم کرب زمیں بھی ہے
سمندر راستہ میرا
مسلسل مجھ کو چلنا ہے
مسلسل برف کی صورت پگھلنا ہے
اگر میں بیٹھ جاؤں راہ میں تھک کر
تو یہ پیاسے اجالے مجھ کو پی جائیں
اگر میں دشت بن جاتا
اگر صحرا کی بانہوں میں بکھر جاتا
سمندر کیسے کہلاتا
ہوائیں سوچتیں مجھ کو
اگر شعلے حرارت مجھ میں بھر دیتے
میں دریا ہوں سفر میرا مقدر ہے
مجھے رکنا نہیں ہے صرف چلنا ہے
چلو اچھا ہوا تم نے مجھے آنسو بنا ڈالا
کہ میں نے آج خود کو ایک آنسو کی طرح بہتے
تمہاری ڈوبتی آنکھوں میں دیکھا ہے
میں دریا ہوں
یہی آنسو وراثت میں ملا مجھ کو
مجھے لگتا ہے کچھ ایسا
میں پربت سے نہیں شاید سمندر سے ہی نکلا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.