یہ وقت کتنی ہی صدیوں سے یوں
حسین منظر بچھا رہا ہے
یہی وہ منڈی ہے جس میں آ کے اداس چہرے تجھے تسلی نہ دے سکیں گے
میں اپنے کمرے میں یوں ہی بیٹھا ہر ایک کش پہ یہ سوچتا ہوں
خدا نے جب یہ جہاں بنایا تو اس میں آدم کو کیوں بسایا
یہ پیڑ پودھے
یہ چیل کوے
یہ چاند تارے
یہ سرخ شامیں
یہ قلب و جاں کے حسین منظر
یہ سب کے سب ان تمام ورشوں کا قرض اب تک چکا رہے ہیں
کہ جن میں اجڑے ہوئے چمن سے صدائیں گونجی تھیں لا مکاں کی
خود اپنے گھر پہ بنا کے انساں خدا بھی اب اجنبی ہوا ہے
وہ اجنبی جو عنایتوں اور نوازشوں سے نوازتا ہے
وہ چاہتا ہے کہ دھیمے دھیمے زمیں کو پھر سے اجاڑ کر دے
عذاب نازل ہوں اس زمیں پر
اور آخری میں اٹھا کے پھینکے ہر ایک شر کو
جو اس جہاں کے ہر ایک رنگ میں چھپا ہوا ہے
دوبارہ پھر سے بنے یہ دنیا
اور اس میں آدم کا نام نہ ہو
دوبارہ پھر سے بسے یہ دھرتی
نہ کوئی دکھ ہو
نہ کوئی ماتم
نہ کوئی سکھ ہو
نہ کوئی محرم
جدھر تلک بھی نظر یہ جائے
ہرے بھرے ہوں وہ سارے منظر
مگر یہ ممکن نہ ہو سکے گا
میں اپنے کمرے سے پھر نکل کر
سمیٹ لوں گا سبھی غموں کو
کہ جن کے کارن یہ نظم میری تھمی ہوئی ہے
بڑھی نہیں ہے وہیں پہ کب سے رکی ہوئی ہے
جہاں وہ صدیاں رکی ہوئی ہیں
جہاں وہ منظر رکے ہوئے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.