منزل
وہ جس مقام پہ کل تھے اسی پہ آج ہیں ہم
مرے حبیبو جواں رات کس قدر تھی حسیں
یہ میرے نقش قدم میری راہ میرے سفر
مرے خیال مری جستجو مری حسرت
مری امید کو ہے علم اور کسی کو نہیں
مرے خیال سے خاموش سہمے سہمے شجر
جو مجھ کو تکتے تھے حیرت سے ان کو بھی شاید
جوان رات کے جوبن کا ہو کوئی احساس
مگر یہ رات بھی اک خواب بن کے ٹوٹ گئی
تمام رات رہی یہ نگاہ گرم سفر
تمام رات ستاروں کو مل سکا نہ سکوں
تمام رات قدم فاصلوں سے ملتے رہے
کہاں کہاں سے میں گزرا نہیں کچھ اس کی خبر
کبھی یقین کہ وہ وادیٔ سکوں ہے قریب
کبھی خیال کہ اس رات کی سحر ہی نہیں
مگر وہ عالم شب بھی گزر گیا آخر
ملی نہ جب کوئی منزل تو ہو گئے بیزار
ستارے اور نگاہوں سے میرے کٹنے لگے
جب آفتاب نے دیکھا مجھے تو میرے قدم
اسی مقام پہ تھے جس سے شب کے سایہ میں
مرے سفر کی ہوئی تھی کل ابتدا مجھ سے
مرے حبیبو ہمارا یہ میکدہ شاید
ہمارے فکر و عمل کا اک ایسا مرکز ہے
کہ ہم کہیں بھی ہوں اس سے جدا نہیں ہوں گے
کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے ٹوٹ جائے گا دل
یہ جستجوئے مسلسل یہ ظلمتیں یہ سفر
ہمارے ذہن میں جو ہے وہ اس جہاں میں نہیں
اگر یہی ہے حقیقت تو کیوں نہ دل رکھیں
یہ میکدہ ہے تو رخت سفر بہت یعنی
کبھی تو ایسا مقام آ ہی جائے گا آخر
جہاں یہ کہہ دے تخیل کمال ہے تو یہاں
رہے خیال ارادے رہیں جواں اپنے
ذرا پکارنا ساقی کو ہے کہاں مصروف
مرے خیال سے اک دور اور ہو جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.