تجھے ہے شکوہ کہ شہر نگار چھوڑ کے میں
نشاط شام طرب کی بہار چھوڑ کے میں
نہ جانے کون سی بستی میں جا بسا ہوں آج
نئی حیات کے بے رنگ دائروں کی قسم
نہ کوئی دوست نہ کوئی رفیق منزل غم
حیات و موت کے دو راہے پر کھڑا ہوں آج
مری حیات ہے خود ایک بے کراں صحرا
نہ جس میں سایۂ گل ہے نہ جس میں رقص صبا
نہ تیرے جسم کی خوشبو نہ پیرہن کی دمک
نہ چوڑیوں کے چھناکے نہ قہقہوں کی کھنک
نہ آنچلوں کی بہاریں نہ عارضوں کے شرار
نہ تیرے سینۂ نورس کے زیر و بم کا خمار
نہ ذکر سرخیٔ لب اور نہ تیری چشم کی بات
تری جبیں کا اجالا نہ تیری زلف کی رات
قدم قدم پہ بگولے روش روش پہ ببول
نظر نظر سے الجھتے ہوئے یہ ویرانے
ہزار صدیوں کی افسردگی سمیٹے ہوئے
ہر ایک ذرے میں پنہاں ہیں لاکھ افسانے
نہ جانے کتنی پر ارمان دلہنوں کے خواب
لہو میں رولے گئے خاک میں ملائے گئے
نہ جانے عظمت آدم کے کس قدر مہتاب
قفس کی ظلمت شب تاب میں چھپائے گئے
نہ جانے کتنے شہوں نے بہ نام لطف و کرم
مہکتی کلیوں سے اپنے حرم سجائے ہیں
نہ جانے کتنے شہوں نے بہ فیض جبر و ستم
گداز جسم جواں لب یہاں چرائے ہیں
نہ جانے کتنی نگاہوں سے نور چھینا گیا
دیار درد کے محلوں کی روشنی کے لیے
نہ جانے کتنے دلوں سے لہو نچوڑا گیا
نئے خداؤں کے چہروں کی تازگی کے لیے
نہ جانے کتنے گھروں کے دیے بجھائے گئے
شبوں کے راج دلاروں کی زندگی کے لیے
دیار سبزۂ و نغمہ سے دور صحرا میں
میں چن رہا ہوں وہ انمول آنسوؤں کے پھول
جنہیں بہار نے ٹھکرا دیا حقارت سے
جنہیں خزاؤں کا دامن بھی کر سکا نہ قبول
ٹپک کے آنکھ سے جو کھو گئے اندھیروں میں
ان آنسوؤں سے جلائیں گے زندگی کے چراغ
ابل پڑیں گی جبینوں سے نور کی کرنیں
سلگ اٹھیں گی امنگیں دہک اٹھیں گے دماغ
نئی حیات کے بے رنگ دائروں کی قسم
اٹھا کے صبح تمنا کے زرفشاں پرچم
مقام آخر شب سے گزر رہے ہیں آج
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.