یہ میرا کمرہ
مرے بزرگوں کا ایک تحفہ
وراثتوں کا روایتوں کا عنایتوں کا
عظیم وارث
پرانی یادوں پرانی باتوں پرانی قدروں کا
اک عطیہ
اگرچہ نقش و نگار اس کے
غم زمانہ کی آندھیوں سے
وہ رنگ و روغن وہ کیف و مستی
ہر ایک خوبی کو کھو چکے ہیں
مگر ہے پھر بھی عزیز مجھ کو
ہر ایک دیوار اب ہے خستہ
ہر ایک محراب ہے شکستہ
وہ فرش جس پر کسی زمانہ میں فرش مخمل بچھا ہوا تھا
مگر کوئی مہ جبیں تھرک کر
یہ گا رہی تھی
فرش مخمل پہ مرے پاؤں چھلے جاتے ہیں
نہ فرش مخمل نہ پائے نازک
چٹائیاں کچھ بچھی ہوئی ہیں
جہاں پہ فانوس جل رہا تھا
وہاں پہ اب اک دیا ہے روشن
جو شام ہی سے بجھا بجھا سا
چراغ مفلس کی طرح یارو
سسک رہا ہے
یہ میرا کمرہ
مرے بزرگوں کا ایک تحفہ
میں سوچتا ہوں میں جانتا ہوں
کہ اس کی بنیاد کیوں پڑی تھی
میں دیکھتا ہوں
کہ اب بھی باقی ہیں اس فضا میں
پرانی تہذیب کے پجاری
وہی روایات شہریاری
وہی ہے جنگ غرور جاری
میں سوچتا ہوں کہ ان روایات کے دھندلکوں سے کیسے نکلوں
مرے لہو کی تمام گردش
مری زباں کا ہر ایک جملہ
مری نظر کا ہر ایک منظر
مرے بدن کی ہر ایک لغزش
یہ چاہتی ہے کہ اس روایت کے مقبرے کو
کسی جہنم میں پھینک آؤں
مگر میں پھر سوچتا ہوں یارو
کہ ہر مہینے کی بیس تاریخ ہی سے کہتی ہے دل کی دھڑکن
کہ ہاتھ روکو
ضرورتوں کی ردا سمیٹو
نہیں تو چادر سے پاؤں باہر نکل پڑیں گے
یہ مشورے دل کے ہوں تو سوچو
نیا مکاں کس طرح بنے گا
نہیں نہیں میں نہیں گراؤں گا شہریاروں کے اس کھنڈر کو
کہ سر چھپانے کے واسطے اب کہیں جگہ بھی نہ مل سکے گی
یہ میرا کمرہ
مرے بزرگوں کا ایک تحفہ
میں اس کا وارث یہ میرا وارث
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.